غلاموں کے لیئے از علامہ اقبال - مع تشریح



تعارف:

 

نظم "غلاموں کے لیئے " میں علامہ اقبال نے اس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ قوموں کی آزادی موقوف ہے اس کے پختہ عقائد پر۔ وہ پختہ عقائد کے جو انسان کے کردار اور گفتار میں جھلکتے ہوں۔

 

حِکمتِ مشرق و مغرب نے سِکھایا ہے مجھے
ایک نکتہ کہ غلاموں کے لیے ہے اِکسیر

 

اقبال فرماتے ہیں کہ مشرق و مغرب کے فلسفے کو میں نے بہت دقت کے ساتھ دیکھا ہے اور اس دقت نے مجھے ایک ایسا نکتہ سکھایا ہے جو غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی قوموں کے لیئے اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اکسیر  لغت میں ایسے جادوئی مرکب کو کہا جاتا ہے جو ایک عام دھات کو سونے یا چاندی میں تبدیل کر سکتا ہو۔یعنی یہ ایک بہت ہی مفید اور کمیاب نکتہ ہے جس کا راز علامہ اقبال غلام قوموں کے لیئے کھولنا چاہتے ہیں۔


دین ہو، فلسفہ ہو، فَقر ہو، سُلطانی ہو
ہوتے ہیں پُختہ عقائد کی بِنا پر تعمیر

 

اور وہ نکتہ یہ ہے کہ  ہے کہ دین ہو یا فلسفہ، درویشی ہو یا شاہی ، انسانی زندگی کے ہر شعبے کی تعمیر پختہ عقائد کی بنیاد پر ہی ہوتی ہے ۔ جب کسی عمارت کی بنیادیں ہی کمزور ہوں تو کوئی چھوٹا سا طوفان بھی اس کو گرانے کے لیئے کافی ہوتا ہے۔ اور عصر حاضر  میں کہ جہاں ہر طرف سے  انحراف کے طوفان شدت کے ساتھ چل رہے ہیں وہاں اگر ایک مسلمان کے عقائد ہی پختہ نہ ہوں تو وہ کیسے مطمئن ہے کہ فساد کے ان طوفانوں میں وہ  غلامی سے بچ جائے گا؟

 

حرف اُس قوم کا بے سوز، عمل زار و زبُوں
ہو گیا پُختہ عقائد سے تہی جس کا ضمیر!

 

قومیں جب  اپنے پختہ عقائد سے منہ پھیر لیتی ہیں اور ان کے ضمیر اور دل پختہ عقائد سے خالی ہو جاتے ہیں تو اقبال کی نگاہ میں وہ قومیں مردہ قومیں ہیں کیونکہ ان کے  دل مردہ ہو چکے ہیں اور ضمیر انحراف کے طوفانوں تلے دب چکے ہیں۔ اور جب کوئی قوم اس حد تک پہنچ جاۓ تو پھر اس قوم کی باتوں میں آزادی کا جذبہ باقی نہیں رہتا اور اس قوم کا ہر عمل  پست اور ذلیلانہ انداز میں انجام پاتا ہے ۔



سید منیب نقوی


 

 

 

 

 

 


videos

#buttons=(Ok, Go it!) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Learn More
Ok, Go it!